پیر، 13 مئی، 2019

موسم بہار تو اس تگ و دو میں گزر گیا کہ کیا تم ہو ۔ تم کہاں ہو۔ تم کیسے ہو۔ اور تمھاری ذات پر اور بات پر یقین کیسے ہو۔ موسم گرما میں انتھک جدوجہد کرتا رہا کہ یقیں اور ضعیف الاعتقادی   پہ مبنی اندھا یقین باہم مل نہ جائیں ۔موسم خزاں  میں دن رات  اپنی پر عیب ذات کے  طاق صاف کرنے دیوں کو تیل سے لبالب کرنے  شیشے صیقل کرنے میں گزر گیا۔ اب  بہار گئی ، لہو سے موسم گرما گیا،  خزاں کا عالمِ برزخ گیا ۔ تیرے اِس نڈھال پرستار کو یقیں تو آگیا ہے  مگر آنکھوں کی بینائی کمزور پڑ گئی ہے ۔ دل تیرا نام جپنا تو سیکھ گیا ہے مگر سانسوں کی بانسری میں شور بہت ہے۔ تیری عبادت کا خمار لہو بن کر رگوں میں دوڑ رہا ہے مگر استخوان میں لرزش آگئی ہے  اب اس آخری دورِ حیات میں  گرم دوشالے جیسی رویا  بخشو  تمازت بخش روشن دن جیسے کشف دان کرو  اور کبھی کبھی اس تنہا دل سے باتیں کرنے  خواب گاہ کی چمنی سے اُٹھتا دھواں دیکھ کر  ملاقات کو آجایا کرو  کہ روشن آگ کے پاس   رو برو بیٹھ کر تمھارے حسن کے تذکرے  ہو ا کریں ۔
میری باطن میں جہاں تم نے اپنے  معبد کے لیے جگہ چھوڑی تھی ۔ وہاں  نہ میرا کبھی گزر ہوا نہ تم نے مجھے وہاں تک رسائی دی۔ اب تمھارے پیامبر میرے پاس یہ سندیس لائے ہیں کہ وہاں  طرح طرح کی آلائشیں  جمع ہیں  اور معبد نہیں بن سکتا۔ میں آس کے اِس ویران برآمدے میں تنہا حیران و پریشان  بیٹھا ہوں ۔ عمر کی ناؤ بد لحاظ  بحرِ وقت میں بہتی جاتی ہے۔ موت کے گھڑ سوار میرے چہار جانب سے زناٹے بھرتے گزرتے ہیں ۔ اب تم ہی کہو کیا اِس دل نیک نیت کو رسائی دو گے یا   خود اپنے شاہی دستے کے ہمراہ   اِذنِ تزکیہ دینے آؤگے ۔ میرے معبود  مجھے  میری  ملّی ، وراثتی اور  معاشرتی آلائیشوں سے پاک کردو۔
خزاں میں سوکھے پتے آنسوؤ ں کےمانند رخسارِ شجر سے ٹپک رہے ہیں ۔ پھر بھی حمد و شکرانے کے مقدس گیت درختوں کے پُر عزم لبوں سے جاری ہیں ۔ کب کوئی شجر خزاں میں چھاؤں کے خلق کو پسِ پشت ڈالتا ہے ۔ کب بہار بےوضو پاتی ہے سرما کی اُوس میں غسلِ صحت کرنے والے اَشجار کو ۔ اور کیا گلوں نے انفاقِ مہک و رنگ میں کبھی کمی کی ہے ۔ کب تحلیل ہوکر درخت کی جڑوں میں مسکُراتے بیج نے یقینِ بہارِ نو کا دامن چھوڑا ہے
آج اگرقرب میّسر ہو تو ایک انتہائی جراٗت مندانہ سرگوشی میں کہوں  تم سے ، کہ جو تم کہو کہ عبادت گاہوں کے صحن سے گرد جھاڑا کروں ۔ عقیدت مندوں کے تزکئیے میں جو پرانے پھول مرجھائے ہوئے گرتے ہیں اُنھیں پرانے مقدس اوراق کی طرح  اُونچی جگہ رکھا کروں ۔ مانگی ہوئی دعاؤں کو مرتب کرکے سندیسوں پہ تمھارا نام پتہ درج کروں قاصد ہوجاؤں
توسنو ! تمھارے قرب کے اِس موسم کی حسرت میں اَشک بار رہتا ہوں۔

Rationality for Pakistan: موسم بہار تو اس تگ و دو میں گزر گیا کہ کیا تم ہو ۔...

Rationality for Pakistan: موسم بہار تو اس تگ و دو میں گزر گیا کہ کیا تم ہو ۔... : موسم بہار تو اس تگ و دو میں گزر گیا کہ کیا تم ہو ۔ تم کہاں...